مریخ پر قبضہ مافیا سرگرم

مریخ پر قبضہ مافیا سرگرم

دنیا میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو نہ کوئی جانتا ہو نہ ہی آپ کے نام سے کوئی یادگار ہو مگر اب ایک موقع آپ کا انتظار کر رہا ہے، ایک جگہ ایسی ہے جہاں آپ اپنے نام کی یادگار قائم کر سکتے ہیں،
آپ کے پڑوسی سیارے میں ایک قطہ زمین کو اپنا نام دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جی ہاں اب ایسا ممکن ہے۔
خلائی تعلیمی پروگرام یوونگو نے اب دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک انوکھی پیشکش کر دی ہے جس کے تحت صرف پانچ ڈالر کے عوض آپ مریخ میں ایک آتش فشاں کو اپنا نام دے سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ اس پیشکش کو حاصل کر چکے ہیں اور اب بھی کم از کم پانچ لاکھ کے لگھ بھگ آتش فشاں بغیر نام سے منصوب ہیں۔ یہ آفر آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے جب بچے سرخ سیارے یعنی مریخ کے بارے میں پڑھتے ہوئے کسی آتش فشاں کو آپ کے نام سے پڑھیں۔
اس آفر سے حاصل ہونے والی آمدن کو خلائی تحقیق میں استعمال کا جائے گا۔
آپ اس سائیٹ پر وزٹ کر کے تفصیلات جان سکتے ہیں۔
چلئے مریخ کے بارے میں مذید جانتے  ہیں۔۔۔
انیسویں صدی کے آخری برسوں میں امریکی خلاباز پرسیوال لورل کا خیال تھا کہ انھوں نے مریخ کی سطح پر نہریں دیکھی ہیں۔ ان کے بقول یہ مشاہدہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے قریب ترین سیارے پر نہ صرف زندگی کا وجود ہو سکتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی ایسی تہذیب بھی ہو جو ہماری تہذیب سے برتر ہو۔پرسیوال لورل کی اس بات سے لوگوں کے لیے ایک نئی خیالی دنیا کے دروازے کھل گئے اور پھر ایچ جی ویلز کا مشہور ناول ’دی وار آف دا ورلڈز‘ یا دنیاؤں کی جنگ شائع ہوگیا، جس کے بعد کئی ایسی کہانیاں اور فلمیں بننے لگیں جن میں مریخ سے آئی ہوئی مخلوق دنیا پر قبضہ کر لیتی ہے۔
یہ سب تو حقیقت سے بالا تر ہے۔لیکن جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو اس وقت بھی انسان کے پاس اتنے طاقتور راکٹ اور خلائی جہاز موجود ہیں جو چند ماہ سے لے کر چند سال تک کے عرصے میں مریخ تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ اس ٹیکنالوجی کو مریخ تک انسانی رسائی کے قابل بنانے میں ابھی وقت باقی ہے۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ناسا، چین اور روس کے علاوہ نجی اداروں نے بھی مریخ تک جلد از جلد انسان بردار پروازیں بھیجنے کی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ اور کئی تربیتی کورسز روس اور امریکہ کے سائنس دان مکمل کر چکے ہیں۔  ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ تک انسانی قدم 2030 کے عشرے تک پہنچ جائیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہاں پہلی انسانی بستی 2050 تک آباد بھی ہوجائے۔اس مقصد کے لیے ایک مہم کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس میں لوگوں کو یک طرفہ سفر کی آفر کی گئی ہے یعنی جو جائے گا واپس نہ آئے گا، ایسا اس لیے نہیں کہ وہ آنے کے اخراجات نہ ادا کر سکے گا بلکہ  وہ جب مریخ کی سطح میں داخل ہو گا تو اس کی کشش ثقل کم ہونے کی وجہ سے اس کی ہڈیوں پر جو اثر ہو گا وہ اسے زمین کی زیادہ کشش والی فضہ میں برداشت نہیں کر سکے گا۔
زمین کے مقابلے میں مریخ بہت ہی ٹھنڈا سیارہ ہے جہاں رات کے وقت درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔ حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں بھی ویسی ہی منجمد برف ہے جیسی زمینی قطبین پر پائی جاتی ہے۔  زمین پر ایک پورے دن (چوبیس گھنٹے) کے مقابلے میں مریخ کا ایک دن صرف 40 منٹ زیادہ طویل ہوتا ہے جس کا دورانیہ 24 گھنٹے اور 40 منٹ ہوتا ہے۔ البتہ مریخ کا ایک سال ہماری زمین پر گزرنے والے 687 دنوں جتنا لمبا یعنی ایک سال، 10 مہینے اور 22 دن جتنا طویل ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کے گرد مریخ کا مدار، زمین کے مقابلے میں خاصا بڑا ہے جس کا ایک چکر لگانے میں مریخ کو یہ وقت لگ جاتا ہے۔




Comments