"ایک زمانہ تھا جب لوگ کسی ایک بات کا دل پر ایسا اثر لے لیتے کہ سنگ دل سے سنگ دل شخص کا دل بھی کسی بانس کی طرح اوپر سے نیچے تک چِر جاتا اور اُس کی پوری کی پوری زندگی بدل کر رہ جاتی۔
ایک رات ٹی وی پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ ایک مشہور و معروف گلوکارJ.سے جو فوت ھو چکے ہیں ان کے حالاتِ حیات پر بات ہو رہی تھی۔ ان صاحب کی زندگی بھی ایک بہت ہی معمولی بات نے بدل ڈالی تھی۔ انھوں نے خود یہ قصہ سنایا۔ کسی شہر میں ایک پُر ہجوم ’کنسرٹ‘ کے مہمانِ خاص تھے۔ فرمائشوں پر فرمائشیں آ رہی تھیں۔گانوں پر گانے گائے جارہے تھے۔ حضرت گاتے ہوئے خود بھی تھرک رہے تھے اور ہجوم میں موجود ’خواتین و حضرات‘ کو بھی ’تھرکا‘ رہے تھے۔ ایک شوخ و شنگ گانا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ کسی قریبی مسجد سے انتہائی بلند آواز میں اذان شروع ہو گئی۔ گلوکار صاحب نے …… (جانے کیا اُن کے جی میں آئی کہ) …… اذان کے احترام میں گانا روک دیا۔ لوگ بے مزہ تو ہوئے مگر کسی میں کچھ کہنے کی جرأت پیدا نہ ہو سکی۔ جرأت کی، تو ایک ننھی سی بچی نے کی۔ اُس نے بڑے بھولپن اوربڑی معصومیت سے پوچھا:
”انکل! آپ نے گانا کیوں روک دیا؟“
انکل نے بچی کو سمجھایا:
”بیٹا! اذان ہو رہی ہے، اس لیے گانا روک دیا ہے“۔
بچی نے ضد بھرے انداز میں کہا:
*”اذان ہو رہی ہے تو کیا ہوا؟ انکل! آپ گائیں نا۔ آپ کو کون سا جنت میں جانا ہے؟“*
بس یہ آخری فقرہ سننا تھا کہ بانس اوپر سے نیچے تک چِرتا چلا گیا"۔
Comments
Post a Comment