Asad Ali: قمر جاوید باجوہ

آرمى چيف جنرل قمر جاوید باجوہ كا ايران كا دوره

حسن روحانی سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے
دو طرفہ تعلقات باہمی امور کے بارے میں ملاقات اور گفتگو کی۔ حسن روحانی نے اس
ملاقات میں پاکستان کی امن و سلامتی کو ایران کی امن و سلامتی قراردیتے ہوئے کہا
کہ ایران دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ انھوں نے
کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کا خاتمہ باہمی اتحاد اور تعاون کے
ذریعہ ہی ممکن ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض غیر علاقائی طاقتیں خطے کے امن و ثبات کو درہم و برہم کرنا چاہتی ہیں اور دونوں
برادر اور اسلامی ممالک کو دمشنوں کے شوم منصوبوں سے آگاہ اور باخبر رہنا چاہیے اس
ملاقات میں جنرل باجوہ نے ایران کو پاکستان کا دوست ، برادر اور ہمسایہ ملک
قراردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ دفاعی شعبہ میں تعلقات کو فروغ دینے کا
خواہاں ہے جنرل باجوہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن
اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی
قربانی پیش کی ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی اور پاکستانی
آرمی چیف کی ملاقات صدارتی محل میں ہوئی۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ دونوں ملکوں کی
افواج بہت سے امور میں اپنا تعاون بڑھا سکتی ہیں جن میں مشترکہ فوجی مشقیں، ملٹری
انڈسٹری اور اپنے تجربات کا تبادلہ کیا جانا شامل ہے۔
فوج
کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پر آر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنرل باجوہ کے
دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کے دوران جغرافیائی صورتحال،دفاع، سلامتی اور
معیشت میں دوطرفہ اور علاقائی سطح پر تعاون سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل
محمد باقری مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔ایرانی فوجی دستوں نے جنرل قمر جاوید
باجوہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ایران کی جانب سے پاکستان سے متصل سرحد پر شدت
پسندی کے واقعات پر متعدد بار خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

ایرانی حکام نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور
قربانیوں کو سراہا۔ دونوں ممالک کے درمیان مبینہ انڈین جاسوس لبھوشن یادو کی
گرفتاری کے بعد تناؤ کا شکار ہوئے تھے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا
کہ کلبھوشن یادو ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے
۔ بری فوج کے سربراہ نے پاک ایران سرحد کوامن اور سلامتی کی
سرحد قرار دیتے ہوئے اس کی بہتر سکیورٹی انتظام پر زور دیا کیونکہ اس بات سے انکار
نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گرد اسے استعمال کرتے ہیں جو دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن
ہیں۔
پاکستانی آرمی چیف نے ایرانی وزیر
خارجہ جواد ظریف سے بھی ون آن ون ملاقات کی۔ رواں برس مئی میں ایرانی مسلح افواج
کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار ایرانی علاقے میں حملے
کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران پاکستان میں ان کے ٹھکانوں
کو نشانہ بنائے گا
۔دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے۔
مذاکرات میں افغانستان کی صورتحال، خطے میں دولتِ اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور
پاک ایران سرحد کی سکیورٹی سے متعلق معاملات بھی زیرغور آئے۔

Comments