Asad Ali: ارسطو ( مغربی سائنس کا جنم داتا)



ارسطو ( مغربی سائنس کا جنم داتا)
(384 قبل مسیح،322 قبل مسیح)

مقدونیہ کے شاہی حکیم میکو میکس کا بیٹا، اس سلطنت کی نوآبادی اسٹاگرہ میں پیدا ہوا۔ سترہویں سال میں افلاطون کا شاگرد بنا اور 25 سال تک اسک یاکادمی کا رکن رہا۔ سکندراعظم کا استاد بھی رہا اور ایتھنز آکر335ق۔ م۔ میں لائسیم نامی اسکول کی بنیاد ڈالی جہاں سکندر کی موت323(ق۔ م۔) تک تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیتا رہا مگر مقدونیہ کے خلاف ہوا چلنے پر ایتھنس سے پودیبیا پہنچا جہاں ایک سال بعد وفات پائی۔
اسکے فلسفہ کا تقدیمی دور افلاطونیت سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ اسکے نظریہ مادہ و ہیئت اور خدا(جسے وہ ہیٔت محض کہتا ہے) و روح کے تصورات میں افلاطونی نشانات نمایاں ہیں۔ مگر دیگر لحاظ سے خصوصاً منہج فکر میں وہ الگ ہے۔ اسکا    مابعد الطبعیاتی نظریہ افلاطون
کےنظریہ تصوریت کےتنقید سے ابھرا۔ارسطو کو ایک درمیان طرز کا عقلیت پسند کہا جاتا ہے کیونکہ اسکا تجربیتی نقطہ نظر اسکے فکر پر بہت حد تک حاوی ہے۔ اس نے اپنے دور کے تمام علوم پر فکر زنی کی اور اسے کئی علوم خصوصاً منطق و حیاتیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ اسکی تحریریں سات حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں:
1.   منطق
2.   ما بعد الطبعات
3.   طبعات
4.   حیاتیات
5.   نفسیات
6.   اخلاقیات  و  سیاسیات
7.   جمالیات            
ان تمام علوم پر اس وقت اس کی نظر اتنی زیادہ تھی کہ بجا طور سے ارسطو کو ان میں سے اکثر علوم کے سب سے بڑے اور ابتدائی مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں تک سماجی علوم کا تعلق ہے ارسطو کی تخلیقات حسب ذیل موضوعات پر زیادہ ممتاز اور نمایاں رہی ہیں۔۱س نے تحقیق کے نئے طریقوں کی بنیاد ڈالی جس میں انسان کی عقلیت پر زیادہ زور دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ارسطو نے انسان اور قدرت کے قانونی تسلسل اور ارتقاء کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ ارسطو نے اخلاقی اور سماجی قوتوں اور محرکات کے باہمی بین عمل کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ وہ آج کے اس خیال سے متفق نہیں تھا کہ سماجی علوم کو "لاقدرانہ         ہونا چاہیے یا اخلاقیات کو ایک علیحدہ آزادانہ وجود حاصل ہونا چاہیے۔ اس نے اخلاق سیاست اور سماجی نظریہ کی باقاعدہ مطالعہ کی بنیاد ڈالی اور اسی کے ساتھ ساتھ معاشیات، قانون اور تعلیم کے تصورات اور سماج میں ان کے فعالی اور باہمی تعلق پر تحقیقاتی روشنی ڈالی۔ سماجی علوم کے میدان میں ارسطو کا عظیم کارنامہ تحقیق کے میدان میں نئے اور سائنسی طریق دریافت ہے۔ جس میں استخراجی  اور استقرائی   طریقہ ہائے تحقیق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ بعد کے تمام بڑے مفکرین نے ان ہی خطوط پر اپنی تحقیقات کو آگے بڑھایا ہے۔ ارسطو کی بے شمار تصانیف میں سیاسیات  اس کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ یہ کتاب محض پولیٹکل سائنس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں انسانی اداروں کے ارتقاء کے فطری نظام، ایک مثالی سماجی نظم کی تشکیل موجودہ سماجی سیاسی اشکال اور اداروں کی درجہ بندی اور اُن کے تجزیہ کے مباحث شامل ہیں۔ سماجی ٹکر میں ارسطو کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ اس سماجی ارتقاء، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات، قانون اور تعلیم کے موضوعات پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں۔ منطق استخراجیات باضابطہ طور پر ارسطو کی دین ہے جس میں اس نے قیاس کے اصول اور استنباط کی صحت کے قوانین کی وضاحت کی۔ قیاس میں دو مبینہ مقدمات سے ایک تیسرا بیان منتج ہوتا ہے جو اگر اصول ہائے قیاس و استنباط کے مطابق ہے تو لازماً صحیح سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسکے ساتھ ہی ارسطو نے مقدمات کے حصول کے لیے استقرائی فکر کی بھی ضرورت پر زور دیا جسکی رو سے منفرد واقعات سے ایک اصول کلیہ مستبط ہوتا ہے۔ اسکی یہ سائنٹفک طرز فکر اسکو افلاطون سے ممیز کرتی ہے۔
ارسطو کا عالم حقیقی محض تصورات کا زائیدہ نہیں بلکہ اس نے مادہ اور ہیئت دونوں کو لاینفک اور ناگزیر قرار دیا۔ مادہ و ہیئت کے ہر مجموعہ کو مادہ۔ ہیئت مرکب کہہ سکتے ہیں۔ ہر شے نسبتاً اپنے زیریں شے کے مقابل ہیئت کا درجہ رکھتی ہے اور بالائی شے کے مقابل مادہ کا۔ اگر اشیا کے ایک محدود سلسلہ کو دیکھیں تو یہ تصور واضح ہو جائے گا۔ بیج، انکرا، پودا، درخت، لکڑی اور میز۔ اس سلسلہ میں ہر پہلی شے اگلی شے کے لیے مادہ ہے اور ہر بعد میں آنے والی شے پچھلی شے کی نسبت ہیئت۔ مگر عالم حقیقت میں جو شے بھی ہمارے تجربے میں آتی ہے وہ مادہ۔ ہیئت مرکب ہے مگر مادہ اور ہیئت کے تصوارت سے کائینات کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایک غیر متلون اور منجمد کائنات کی تصویر ہے۔ جبکہ کائنات میں حرکت و تبدل جاری و ساری ہے۔ اس پہلو کی توضیح کے لیے اس نے تصورات کا ایک اور جوڑا پیش کیا ہے۔ جنہیں بالقوہ(امانیت) اور بالفعل(واقعیت) کہا۔ جسطرح عالم طبعی میں ہر شے لازماً مادہ اور ہیئت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہے کہ ہر شے اور ہر حقیقت میں کچھ امکانات ہوتے ہیں جو آگے چل کر حقیقی یا واقعی بن جاتے ہیں۔ ایک بےہیئت سنگ کو تراش کر صناع ایک خوبصورت مجمسمہ بناتا ہے مگر ایک حسین مجمسمہ کا ایک پتھر سے نکلنا اسی وقت ممکن ہے جب اسکا امکان اس پتھر میں موجود ہو۔ اس تبدیلی کو بروئے کار لانے کے لیے مختلف اسباب و علل کی ضرورت ہوتی ہے مگر اسکی بنیادی شرط یہ ہے کہ مجسمہ بننے کی صلاحیت اس پتھر میں نہاں ہو۔ جب بیج سے انکرا اٹھتا ہے تو اس امر کا تسلیم کرنا لابدی ہے کہ امکانی طور پر انکرا بیج میں موجود تھا۔ اسطرح ارسطو نے نہ صرف حرکی و تلون پذیر کائنات کی توضیح کی بلکہ اس نے اشیا کا تسلسل اور مادی و دیگر اسباب کی نسبتوں کو بھی آشکار کیا۔ بالقوہ اور بالفعل اور مادہ و ہیئت کے تصوری جوڑوں میں جو مطابقت ہے وہ اسکے خدا کے تصور میں صاف طور پر نظر آتا ہے جسے اس نے ہیئت محض اور بالفعل محض کہا ہے۔ اس تصور میں کوئی امکان موجود نہیں اور اسطرح اس میں تبدیلی اور حرکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ خدا کو اس نے تمام تر واقعیت کہا۔ یہ ذات کائنات کا محرک اعلی ہے جو تمام تر حرکتوں کا غائی منبع و مخرج ہے اور خود حرکت سے پاک۔
کسی شے کے علم کے حصول کے معنی ارسطو نے اسکی علت معلوم کرنا قرار دیا۔ اسی لیے اپنے مابعدالطبعیاتی تحریروں میں اس نے علت کے تصور پر کافی بحث کی ہے۔ اسکے نظریہ علت کے مطابق علتیں چار قسم کی ہوتی ہیں:
(ا) علت مادی
، جس سے کوئی چیز بنتی ہے مثلاً کرسی کے ضمن میں لکڑی۔
(ب) علت فائلی
، جیسے بڑھئی اور اسکے آلات۔
(ج)علت صوری
، کرسی کی ہیئت جو بڑھئی کے ذہن میں پہلے موجود ہوتی ہے اور جسکے سبب جو شے وہ بناتا ہے وہ کرسی ہوتی ہے نہ کہ میز۔
(د)علت غائی
، وہ غایت یا مقصد جسکی بنا پر اسکا فلسفہ غائیت کا اول ترین مظہر ہے۔ اسکی نظر میں مادہ کی نسبت ہیئت زیادہ حقیقی ہے کیونکہ مادہ محض امکانیت اور صلاحیت کا نام ہے جسک یتکمیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ ہیئت کے عمل سے واقعی بن جاتا ہے۔ اس نے یونانی فکر کے قدیم مسئلہ حرکت و تبدل کو حل کرنے کے لیے ان دو تصورات سے کام لیا۔
ارسطو کے عالم طبعی میں تین قسم کی تبدیلیوں کا ذکر ملتا ہے۔ کیفی، کمی اور حرکی(مکانی)۔ آخر الذکر کو ارسطو نے اساسی مانا کیونکہ یہ تبدیلی کائنات کی تمام تبدیلیوں میں شامل رہتی ہے مگر اسکے ساتھ کیفی تبدیلی بھی عناصر کی تمام تبدیلیوں میں آشکار ہوتی ہے کیونکہ ابتدا سے مادہ میں جو مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان میں کیفی تبدیلی ہر جگہ نمایاں ہے۔ عالم طبعی کو سمجھنے کے لیے ارسطو نے اپنے مندرجہ بالا مخصوص تصورات سے مدد لی ہے۔ مادہ۔ ہیئت مرکب کی مدد سے اس نے تمام عالم کو ایک ایسا تسلسل قرار دیا جسکا ایک سرا مادہ محض ہے اور دوسرا سرا ہیئت محض۔ مادہ جو خالص بالقوہ ہے حرکت پذیر ہے مگر خود اپنے اندر اصول حرکت نہیں رکھتا۔ لہذا ایک محرک کی ضرورت پیش آتی ہے اور چونکہ حرکت کی توضیحات کا ایک لامتناہی سلسلہ ممکن نہیں اسلیے اس نے محرک اولی یا محرک ابدی کو ناگزیر سمجھا جسے دینیات اور ما بعد الطبعات میں خدا کہا گیا ہے۔ یہ تصور کائنات کی حرکت و غایت دونوں کی تشریح کرتا ہے۔
حیاتیات میں ارسطو کے مخصوص تصورات بہت اہم اور واضح نظر آتے ہیں۔ حیاتیاتی مظاہر کو سمجھنے کے لیے اس نے ہر حیاتی عمل کو بالقوہ کا بالفعل میں بدلنے کے مترادف بتایا۔ جسم کی ساخت اور اسکے تقابلات میں جو غایت نظر آتی ہے وہ ارسطو کے علم فلسفیانہ تصورات کے مترادف ہے۔ مختلف افراد کے بقا و فنا کے درمیان نوع انسانی کا جاری رہنا ہیئت کے تقدم کو ثابت کرتا ہے۔ نامیاتی مادہ میں اصول نمو اسکی عضویاتی ساخت و عمل کے اندر پنہاں ہے اور اسکی بالیدگی و تنظیم ہی اسکی غایت ہے جو اسکے بالقوہ کو بالفعل میں بدلتی رہتی ہے اور مادہ پر ہیئت کی بہتر سے بہتر شکلیں پیدا کرتی رہتی ہے۔ جبکہ غیر نامیاتی مادہ صرف زمانی حرکت کا اہم ہے اور اسکے لیے بھی غیر کا محتاج رہتا ہے۔ اسکی ذات کے اندر اسکی غایت نہاں نہیں ہوتی۔
ارسطو کی نفسیات کو اسکی حیاتیات سے الگ کرنا مشکل ہے کیونکہ یونانی فکر میں روح کو اصول حیات مانا گیا ہے جو ایک فطری عضویہ کی تکمیل کی ضامن ہے۔ ارواح اپنے مختلف اعمال و حرکات کی بنا پر ایکدوسرے سے ممیز ہوتی ہیں اور یہ تفرقات نامیاتی ساخت کے مختلف مظاہرے سے تطابق رکھتے ہیں۔ خوراک، بالیدگی اور تولید تمام طبعی، نامیاتی حرکات میں مشترک ہیں اور یہ روح کے ناگزیر مگر کم ترین اعمال ہیں۔ اسکے بعد احساس، خواہشات اور مکانی حرکت ہیں جو متفرق حیوانات میں مختلف مدارج اور شکلوں میں ہویدا ہیں۔ بالا ترین سطح پر شعوری و ارادی حرکات اور نظری و تعقلی فکر ہیں جو انسان کو دیگر حیوانات سے ممیز کرتے ہیں اور اسکے حیوان ناطق ہونے کا ثبوت ہیں۔ اسطرح روح کے یہ تین اعمال و وظائف ہیں جنہیں بالترتیب نباتاتی، فعالی اور عقلی کہا گیا ہے۔ یہ نظریہ افلاطون کی روح کی سہ جہتی تقسیم کے مطابق ہے مگر ارسطو نے اپنے نظریہ میں روح کے اعمال و وظائف پر زیادہ زور دیا ہے۔ ارسطو نے حسی ادراک کو پانچ حواس کے مطابق بتایا ہے مگر وہ انکے علاوہ ایک حس مشترک بھی مانتا ہے جو ہمارے مختلف احساسات کو منضبط کرکے انہیں ایک اکائی عطا کرتی ہے۔ عقل کی مدد سے انسان بنیادی اصولوں کو سمجھتا ہے جن پر علم کی بنیاد ہے۔
اپنے سیاسیاتی فکر میں ارسطو نے سماج(سیاسی طبقہ) کو انسان کی انفرادی زندگی کا ملجا و منبع قرار دیا ہے۔ ملک کی ابتدا خاندان سے ہوتی ہے مگر خاندان کا منتہی مملکت ہے۔ منطقی طور سے اس نے مملکت کا تقدم تسلیم کیا گو زمانی طور سے خاندان سابق ہے۔ مملکت کو اس نے نامیاتی اصولوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس نے ایسا ایک عظیم عضویہ بنایا جسکی زندگی اور جسکا ارتقا ہی اسکے مختلف حصوں کی زندگی اور بالیدگی ہے مگر مملکت کے ارکان کی بھی اپنی زندگی ہوتی ہے گو افراد کی زندگی کا مقصد مملکت کے اندر ہی پنہاں ہے۔ اس نے سلطنت یا شاہی حکومت کو بہترین تسلیم کیا۔ ارسطو کے مطابق سیاسیات کا مطمح نظر پورے سماج کی خیر ہے۔ لہذا اسکی نظر میں اخلاقیات کو سیاسیات کی ایک زیریں صنف کہا جا سکتا ہے کیونکہ سماجی خیر زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے جو اخلاقی زندگی کو اپنے اندر شامل کرتی ہے۔ اخلاقیات میں اس نے خیر انسانی کو روح کا ایک ایسا عمل بتایا جس میں روح کا عقلی و فکری پہلو اسکے نباتاتی اور حرکی وظائف پر حاوی ہے۔ لہذا خیر اعلی کو اس نے ایسی سعادت سمجھا جو تعقلی فکر اور روحانی و عقلی کمال سے حاصل ہوتی ہے۔ انسانی خیر سماجی خیر کا ایک لازمی مگر تحتی جزو ہے۔ نیکی کے متعلق اسکا یہ مشہور قول ہے کہ ہر چیز کی کمی یا زیادتی بری ہے۔ اس نے اعتدال کو عملی فضیلت کا اہم ترین جزو قرار دیا۔ نیکی ایک ایسی درمیانی قدر ہے جو زیادتی و کمی دونوں سے گریز کرتے ہوئے درمیانی رویہ بن جاتی ہے مگر یہ قدر بعض صورتوں میں زیادتی سے قریب ہے تو بعض میں کمی سے۔

اپنے جمیالیاتی فکر میں ادب و فن کو اس نے تخلیقی کہا جس میں انسان ایک نئی چیز کو وجود میں لاتا ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ میں نقالی ضرور ملتی ہے مگر یہ نقل محض حسی اشیا کی نہیں بلکہ تخیل و تصور کے آئینہ میں تشکیل شدہ ان شبہات کی نقل ہے جو افلاطونی تصورات جیسی حقیقی ہوتی ہے۔ اصل فن فطرت کی مثالی اور تصوراتی تصویر کھینچنا ہے جس میں فطرت اپنے تمام تر حسن کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ شاعری کو اس نے ناصحانہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ فلسفہ شاعری سے بلند ضرور ہے مگر اسکا اپنا ایک مقام ہے جو فلسفہ سے مختلف ہے اور جسے برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ادب میں اس نے المیہ کو بہترین صنف سمجھا۔ جمالیات میں ارسطو کا مشہور نظریہ تنقیہ ہیئت و جذبہ کے درمیان ایک نمایاں تفریق کی طرف اولین اشارہ ہے۔ اسکے مطابق ادب و فن کو ترحم و خوف جیسے جذبات سے پاک کرنا چاہیے جو عموماً المیہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

یونان کا فلاسفر سائنسداں باسٹھ  برسوں کی کامیاب زندگی کے بعد حضرت عیسیٰ سے 322 برس  پہلے وفات پا گیا۔ ایک سال پہلے سکندراعظم کی موت ہو چکی تھی۔ اس طرح یونان کی عظمت کا سورج اپنے نصف النہار پر پہنچ کر غروب ہو گیا۔

Comments