بچے کی تربیت کیسی ہو۔

تربیتِ اولاد کی ابتدا
جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے ۔
علم حاصل کرو مہد سے لحد تک
 یعنی ہمیں پتہ لگا کے پیدائش سے ہی بچے کو علم کی ترغیب دینی چاہیے۔ تعلیم و تربیت کا کام پہلے دن سے ہی شروع کر دینا چاہیے اس دنیا میں آتے ہی ننھی منی  سی جان آنکھیں کھول کر زمین اور آسمان کو غور سے دیکھنے لگتی ہے ، اس کے خواص خمسہ پوری طرح کام کرتے ہیں، ہر بات اور ہر حرکت کو اپنے دماغ میں بٹھاتے چلے جاتے ہیں ، وہ محبت غصہ نرمی اور سختی میں پہلے روز ہی سے فرق محسوس کرنے لگتی ہے ۔ بچہ ،والدین   اور دوسرے افراد کے برتاؤ میں بھی فرق محسوس کر سکتا ہے یعنی بچہ پہلے روز ہی سے ماں کی گود  پہچانتا ہے۔ یعنی گویا   اُس نے اپنی ماں کی گود سے سیکھنا شروع کردیا اسی لئے امت مسلمہ کا ہر بچہ، کہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت تکبیر کہہ دی جاتی ہے ، بچہ اس وقت ان کلمات کے معنی تو نہیں سمجھ سکتا لیکن یہی کلمات اس کو آگے چل کر ذہن اور دماغ کے راستے دین اسلام پر قائم رہنے میں مدد دیتے ہیں۔  بچے کی عمر کے ابتدائی چند ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں بچہ اس دور میں بڑی تیزی سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے کیونکہ اس کی سیکھنے کے صلاحیت اور سیکھنے کی رفتار عام انسانوں سے بہت تیز ہوتی ہے ۔بچے کا ہر مشاہدہ اس کے ذہن میں نقش ہوتا چلا جاتا ہے ۔بڑے غیر محسوس طریقہ سے ہر دیکھی سنی بات  اس کے کردار کا جزو  بنتی چلی جاتی ہے۔ یہ بات یاد رکھئے ہر وہ معاشرتی بات جو کسی کے سامنے کہنا غلط ہے وہ بچے کے سامنے بھی کہنا غلط ہے،  ایسا سوچنا کے یہ تو ابھی چھوٹا ہے بات نہیں سمجھ سکتا  دراصل ہماری ناسمجھی ہے۔ چونکہ گھر کا ماحول ماں بناتی ہے توا س کا بچہ  پہلا تصور یا پہلی شخصیت نمونے کے طور پر اپنی ماں کو دیتا ہے، اگر آپ اپنے بچے کو کامیاب بنانا چاہتی ہیں اور اس کی شخصیت اور کردار کو صحابہ یا نبی پاک ﷺکے  کردار کے مطابق یہ کسی بھی اہم شخصیت کے کردار کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے پہلے خود آپ کو ایسا ہونا پڑے گا،کیونکہ بچہ اپنے والدین کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔ اور  ماں باپ سے جو توجہ اور شفقت اسے حاصل ہوتی ہے اس کے سبب وہ ان کی شخصیت کو اپنے لئے اعلیٰ و ارفع اور قابل تقلید خیال کرتا ہے۔ اس معصومانہ دور میں کیونکہ وہ خود غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا ،اب جو  اس کے والدین نے صحیح بتایا وہ اس کے لئے صحیح ہے اور جو غلط بتایا وہ غلط ہے ۔بچہ بہت اچھا نقال ہوتا ہے، لڑکیاں ابتدا سے ہی ماں کی تقلید کرنے کی کوشش کرتی ہے دو تین سال کی عمر میں یہ رنگ بہت واضح ہو جاتے ہیں اس کے برعکس بیٹے بالعموم والد کے قول و فعل کے نقال ہوتے ہیں۔
بچہ جو کام بار بار کرتا ہے یا اس سے کروایا جاتا ہے وہ اس کی عادت کا حصہ بن جاتا ہے مثلاً ماں بچے کوجتنی مرتبہ کھانا کھلانے سے پہلے ہاتھ دھلواتی ہے، کچھ عرصہ بعد ماں کو اس طرح کی ضرورت نہیں رہتی کھانے کے وقت بچہ خود ہاتھ دھونے چلا جاتا ہے ۔ماں ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہتی ہےتو  بچے کی زبان خود بخود ان الفاظ کو اپنا لیتی ہے۔ مختلف امور مثلاً لباس پہننے میں دائیں جانب کی فوقیت پر کھانے کے بعد الحمد اللہ کہنا بچے کے سامنے جو کام بار بار دہرایا جائے گا وہ  اسے اپنی عادت بنا لے گا، آگے چل کر یہ عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ اس کے خلاف چلنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے ۔کسی کام کی عادت ڈالنے کے لئے عمر کا ابتدائی حصہ سب سے اہم ہوتاہے، ابتدائی دو سالوں تک کوئی کام کرنے کے لئے بچہ دلیل نہیں مانگتا۔، بلکہ اس وقت وہ "کیا" اور "کیسے"  کا سوال کرتا ہے یہ نہیں پوچھتا کہ "کیوں " کرنا ہے اور کس لیے کرنا ہے؟۔ وہ اپنے بڑوں سے یہ توقع رکھتا ہے دراصل یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اسے بتائیں کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے و کسی عمل کا بھی تنقیدی جائزہ نہیں لے سکتا  جبکہ بالعموم تین سال کے بعد "کیوں" کا جواب مانگنا شروع کر دیتا ہے  پھرجوں جوں  وہ بڑا ہوتا جاتا ہے ہر کام اور ہر بات کے لئے دلیل مانگتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ہر کام کی حقیقت اس کے سامنے واضح کی جائے۔ ہر کام سے پہلے بسم اللہ کیوں کہنا چاہیے؟ اسے کیوں دایاں پاؤں یاد ایاں  جوتا پہلے پہننا چاہیے؟ اسے کیوں دوسروں کے ساتھ ادب سے بات کرنی چاہئے؟  "جی" یا "محترم " جیسے الفاظ کیوں بولنا چاہیے؟۔ پہلے دو سال کی عمر میں" کیوں" کہ فلسفیانہ جوابات سمجھنے کی وہ اہلیت نہیں رکھتا، اس لئے فلسفہ سے احتراز برتیں اور  جواب میں اس کے فہم اور دلچسپی کو پیشِ نظر رکھیں ،لمبے چوڑے اور مشکل جواب اسے مت دیں ،کیونکہ اس وقت جن امور کی اسے عادت ڈال دی جائے گی ممکن ہے وہ عادتاً ایسا ہی پوری زندگی کرتا رہے گا۔ لیکن جب تک مناسب دلائل سے اس کا ذہن مطمئن نہیں کیا جائے گا اسکی عادت پختہ نہیں ہوگی ،بہت ممکن ہے اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب حاصل نہ کر سکنے کے باعث کوئی کام جو وہ پہلے کرتا چلا آیا تھا بڑا ہونے پر اسے ترک کر دے یا بے معنی تصور کرے۔
ہمیں چاہیے کہ بچے کی تربیت کا پہلے دن سے اہتمام کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ بڑا ہونے پر اس کی تربیت کر لی جائے گی یا دیکھا جائے گا ۔یہ نہ ہو کہ ہم آج اور کل کرتے رہیں اور بچہ بگڑ جائے اس کے بعد  ساری عمر  ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہیں۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

Comments