امریکہ کی تباہی
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ تیسری عالمی جنگ میں روس پر چین حملہ کرے گا ۔ لیکن پھر دونوں میں صلح ہوجائے گی اور ایک طاقت جس کے نام کا حرف ِآغاز الف یعنی امریکہ اس طرح تباہ ہو جائے گا کے صرف کتابوں میں اس کا صرف نام ہی باقی رہ جائے گا۔اس کے بعد حج کے موسم میں آمد مہدی کا شور ہوجائے گا اور دجال بھی اصفہان یعنی ایران سے باہر نکلے گا۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے مسلمانوں میں پھیلنے والی جدید مغربی تہذیب کی تباہ کاری، مذہب سے دوری اور دیگر خرابیوں کے متعلق بھی پیشن گوئی کی ہے ۔اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسے وہ موجودہ دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اسی کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ وہ اس دور کی کئی برائیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔مثلاً،حلال اورحرام کی تمیز ختم ہو جائے گی، عورتوں کے اغواء اور عصمت دری کے واقعات عام ہو جائیں گے، آپس کی محبتیں ختم ہو جائیں گی ،بے پردگی کا دور ہوگا، عورتیں نقاب اوڑھنا چھوڑ دیں گی، بے شرمی اور بے غیرتی کا رواج عام ہوگا، ماں اپنی بیٹی کے ساتھ مقابلہ حسن کرے گی، کافر لوگ مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف تبلیغ دیں گے، بڑے بڑے عالم دین لوگوں سے رشوتیں لیں گے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئیوں کو اگر ایک ترتیب دے دیں تو اس کی روشنی میں تصویر کچھ اس طرح بنتی نظر آتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بہت بڑی جنگ ہو گی ۔ اس جنگ میں ہندوستان کو ابتدا میں پنجاب میں کافی کامیابی حاصل ہو جائے گی اور دریائے اٹک کا کنارہ میدان جنگ بن جائے گا۔ یہ دیکھ کر کے پاکستان مٹنے کو ہے تو بیرونی دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ افغانستان، ایران اور چین سے تاذہ دم کمک پہنچ جائے گی۔ اور جنگ کا پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ جائے گا۔پھر اسلامی فوجیں ہندوستان پر قابض ہو جائیں گی اور چالیس سال تک مغرب سے آنے والے مسلمان حکمران کی زیرقیادت زبردست امن وامان رہے گا اور خوشحالی ہو گی۔لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی ۔بلکہ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کا نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ جس میں دنیا کے تمام ممالک ملوث ہوں گے اور انگلستان یا امریکہ میں سے ایک ملک ہمیشہ کے لئے دنیاء کے نقشے سے مٹ جائے گا۔اس بات سے ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس جنگ میں وسیع پیمانے پر ایٹمی یا جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا، جبھی تو ایک ملک کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ بہر حال ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اور بے شک غیب کا علم صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کو حاصل ہے۔
Comments
Post a Comment