یہ اسی کہر زدہ جنوری کی ایک سرد صبح کا تذکرہ ہے
جب سلطنت برباد کے صوبے ٹمبکٹو میں شاہ برباد کھڑ کھڑاتے لڑکھڑاتے آن وارد ہوتے ہیں
شاہی سوری کو سٹینڈکرتے ہیں اور انجن بند کرتے ہیں تو فضائے بسیط میں عجب اطمنان اور خاموشی کی لہر دوڑ جاتی ہے چرند پرند اپنے خالق کا سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ انہیں صور اسرافیل کے جیسے اس شور سے نجات ملی جو کہ سلطان کی شاہی سواری کے سائلنسر سے بلند ہو رہا تھا ..
خیر شاہ نے ایک نظر ارد گرد پر ڈالی اور اپنا مشہور زمانہ کوٹ انتہائی نفاست سے اتار کر قریب ہی موجود ایک درخت کی ٹوٹی شاخ پر لٹکا دیا.. پھر اپنا کنٹوپ اور امپورٹڈ رے بین کے چشمے سے نجات حاصل کی جو کہ ایک پٹھان بھائی سے مبلغ اسی روپے میں خرید فرمایا گیا تھا..
پھر سلطان اپنی مسند شاہی کی طرف بڑھے اور اس میں گر کر پھنس سے گئے کیونکہ یہ چھپر کھٹ ایک ایسے کاریگر نے تیار کیا تھا جس کے ہاتھ سلطان نے سزا کے طور پر پیلے کروا دئیے تھے..
تمام عمائدین سلطنت وزرا امراء سب امور سلطنت کی انجام دہی میں غوطم غوط تھے..
راوی اور شاہی مؤرخ سب چین ہی چین لکھ رہے تھے...
شاہ کا قلب اطمنان سے بھر گیا اور انہوں نے گنگنی سی دھوپ آنکھوں میں سمو کر بند کر لی.. اور نیم دراز ہو گئے..
حسب معمول کانوں میں دھنسی ٹوٹیوں پر ڈانس افٹر ڈیتھ چل رہا تھا اور خیال کے پردوں پر برٹنی سپئیرز کی اندر سبھا جمی تھی..
عجیب سرشاری اور بے خودی کا سماں تھا
کہ اچانک کہیں سے ایک گکڑ اڑتی ہوئی آئی اور سلطان کے ماتھے پر کھٹ سے لگی اور اگلے لمحے شاہ کی انکھیں پٹ سے کھلیں اور بیٹھنے کی کوشش میں مزید چھپر کھٹ میں الجھ گئے
معاملہ ابھی زیر غور تھا کہ قائم مقام امیر سلطنت اور وزیر سلطنت ہاتھوں میں چائے کا کپ لیے انتہائی ادب سے فرما رہے تھے کہ ..
ہن نپیسیں یا چاء اتے ویٹ چھوڑاں...
بادشاہ نے فراخدلی سے مسکرا کر گرم گدلے سے پانی کا کپ پکڑا اور چسکی لے کر باقی کپ ایک طرف ویٹ دیا..
پھر انکھیں بند اور نیم دراز...
ساتھ ڈھائی روپے کا امپورٹڈ سگریٹ سلگا لیا..
کہ اچانک ... سلطان کے کانوں نے کسی مشینی سواری کے انجن کی نفیس تھرتھراہٹ محسوس کی.. لیکن شاہ اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر گئے کہ جہاں کھرکا ریڑھی بھی اوکھی آتی ہے وہاں ایسی نفیس اواز والی گاڑی کیسے..
پھر ایک مدھم کلک کی اواز آئی اور سلطان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ کسی خود کار نظام والی سواری کا پارکنگ گئیر لگا ہے..
معاملہ سمجھتے ہوئے شاہ نے دیکھا کہ تین نفیس با وقار نوجوان لباس فرنگ میں ملبوس لہسن کی دھرتی پر قدم رکھ چکے تھے..
جہاں وزیر سلطنت گوڈی میں مصروف تھے..
دو چار کلام انکے آپس میں ہوئے جن میں شاہ نے بس اتنا سنا کہ..
اے تھوم کیندا اے..
وزیر بولے .. ڈبے پیر کا ہے ..
نوجون کچھ نہ سمجھتے ہوئے پھر اسے استفسار کرتے ... کہ کہاں ہیں وہ پیر صاحب
وزیر گویا ہوئے کہ تیرتھ یاترا پر گئے ہین..
خیر وہ نفیس افراد کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی جی جی کرنے لگے اور ایک دوسرے کو اشارہ کیا کہ پاگل ای اوئے..
اتنے میں سلطان بھی ان کے پاس قدم رنجہ فرما چکے تھے..
انھون نے سلطان کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے کیمرے نکالے اور سبز دھرتی کی تصویریں اتارنے لگے اور ہمراہ اپنے بوتھیان کے ..جسے آجکل سیلفی کہا جاتا ہے
پھر ایک نے بڑا سا لیتر پیڈ نکالا اور لہسن کے لیے نسخہ جات موضوع فرمانے لگے
اور کافی کچھ لکھ کر وزیر کو پکڑا دیا اور کہا کہ پیر صاحب آئیں تو بتائیے گا کہ یہ تمام ادویات استعمال فرمائیں لہسن کو آفاقہ ہوگا اور فکر کی بات نہیں اب ہم آتے رہیں گے..
خیر ان کے جانے کے بعد سلطان نے وہ نسخہ کیمیاء دیکھا تو تجاویز میں تین مختلف ناموں سے پوٹاش ہیومک ایسڈ اور دو طرح کی پھپھوندی کش ادویات اور ساتھ سلفر الگ سے ..
خیر یہ روز کا معمول تھا .. سلطان نے نطر انداز کیا اور نسخے کی بتی بنا کر وزیر کو پکڑا دی..... اور پھر سے اپنے مسند شاہی پر جلوہ افروز ہو گئے.....
اور راوی چین لکھتے لکھتے پھر سو گیا...
پس تحریر....
مقصد یہ سب لکھنے کا تھا کہ مختلف پیستی سائیڈ کمپنیوں کے فیلد افیسرز اور ان کے لگدے لاندوں کا طریقہ واردات واضح ہو..
میں باالکل چپ رہتا اگر کچھ دن پہلے اسی مشہور و معروف کمپنی کا ایک ڈیلر اور کچھ سائنسدانوں نے میرے ایک دوست کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی..
وہ مزکورہ ڈیلر کے پاس گیا اور کہا کہ لہسن گروتھ نہیں کرتا کیا کروں اس نے سلفر اسی فیصد کے پیکٹ اٹھا دئیے اور کہا کہ ان کو چھٹہ کر دو.. اب سلفر اور چھٹہ اسقدر مہین پاوڈر چھٹہ دیتے ہوئے اس کے سانس کے ذریعے اندر چلا گیا اور وہ دو دن قے کرتا رہا مر مر کے بچا ...جبکہ اگر اسے سپرے کا مشورہ دیتے تو یہ نوبت نہ آتی..
خیر اے میرے وطن کی زراعت کے نا خداؤ
اک زرا رحم بس.. میں اپکی دل سے عزت کرتا ہوں اور تعلیم و شعور کی برتری کو بھی مانتا ہوں.. آپ اس قابل ہیں کہ گاڑیوں میں گھومیں اور زراعت کے لیے مفید کام کریں
اللہ کریم آپکو اور نوازے..
بس اتنی گزارش ہے کہ اپنی پرادکٹس سیل کرنے کے لیے میرے جیسے غریب ان پڑھ کسانوں کے نوالے نہ چھینا کریں ...
مزید یہ کہ آپکی کمپنی کا نام مقام نہیں لکھا آپکو مینشن نہیں کیا.. بس سمجھ جائیں کیونکہ آپ بھی فورم میں ہیں اور وہ میرا دوست بھی
اور نہ ہی ان سائنسدانوں کا تعارف دیا ہے جو لمبی خود کار گاڑیوں میں آ کر کیمیائی نسخے لکھ جاتے ہیں اور سادہ لوح کسان ڈیلر کے پاس جیبیں جھاڑ آتے ہیں..
اگر آپ اپنی روش نہیں بدلیں گے اور تو پھر ہم ضرور بدلیں گے .. اگلی بار نام مقام کے ساتھ نشاندہی ہوگی..
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو..
والسلام آپ سب کا خیر اندیش ..
بابا جی نیل عرف ڈبا پیر المعروف شیرانوالی سرکار .. والیء ریاست برباد
امیر تنظیم ان پڑھ کسانان الباکستان...
منقول
Comments
Post a Comment