'پاکستان' سونے کی چڑیا ۔۔۔۔۔۔۔ !

'پاکستان' سونے کی چڑیا ۔۔۔۔۔۔۔ !

بظاہر چھوٹا سا وجود رکھنے والے پاکستان کے اندر اللہ نے کیا کچھ سمویا ہوا ہے  آئیے آج اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ 

پاکستان کا جغرافیہ

پاکستان بے پناہ جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اس پر بیک وقت دنیا کی تین بڑی سپر پاورز انحصار کرتی ہیں۔

پاکستان کی سمندری حدود خلیج فارس کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ چین اور جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ پاکستان روس، وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان کو بحر ہند اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
پاکستان تیل کی دولت سے مالامال خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔ یہ جنوبی ایشیاء اور جنوب مغریی ایشیا کے درمیان پل ہے۔ 
پاکستان درہ خیبر کے ذریعے افغانستان تک اور شاہراہ قراقرام کے ذریعے چین تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ 

کراچی ایک بہت بڑی بندرگاہ اور دنیا بھر کے بحری جہازوں میں ایندھن بھرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے۔ جبکہ پاکستان کو دوسرا ساحل گوادر پوری دنیا کی آبادی کو دوحصوں پر تقسیم کرتا ہے۔ گوادر کا ساحل بحرہند کو کنٹرول کر سکتا ہے۔

اگر چین کو تیل حاصل کرنا ہوتو اسے آبنائے ملا کا کے ذریعے بہت لمباراستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اوریہ وہ علاقہ ہے جو امریکہ اور انڈیا کے زیرتسلط ہے۔ چین کو تیل اپنے مغربی علاقوں تک لانے کے لیے ہزاروں میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ 

لیکن گوادر کی بندرگاہ نہ صرف یہ فاصلہ بہت کم کروا دے گی بلکہ چین کو امریکی اور انڈین دست برد سے محفوظ راستہ بھی مل جائیگا۔  مزید براں گوادر میں نیول بیس کے ذریعے چین کو مشترق وسطی کے ساتھ تجارت کرنا آسان ہوگا۔ 

امریکہ اس خطے میں ہمیشہ سے پاکستان پر انحصار کرتا رہا ہے چاہے وہ روس کے خلاف سرد جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ امریکہ کی اس علاقہ میں دلچسپی اس وجہ سے ہے کہ وہ ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین اورجوہری صلاحیت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ایران اور "دہشت گرد افغانستان" کا راستہ روکنا اور بھارتی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ سیکورٹی اور بزنس امریکہ کے اس علاقے میں دو بڑے مفادات ہیں جبکہ پاکستان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرورت ہے بالخصوص القاعدہ آپریشنوں کے بعد امریکی دانشور باربار اس حقیقت کا اعترف کرچکے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اس خطے میں بے بس ہیں۔

چین اور امریکہ دونوں پاکستان میں اپنا اثرور سوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اس صورت حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا ،مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کا جنکشن ہے۔ یہ وسائل کی کمی کا شکار ملکوں اور وسائل کی فراوانی کے حامل ملکوں کو آپس میں ملاتا ہے۔  عرب ممالک، وسطی ایشائی ممالک، ایران اور افغانستان کے پاس توانائی کے وافر وسائل ہیں جبکہ بھارت اور چین جیسی دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے ممالک میں ان چیزوں کی کمی ہے۔ دونوں ممالک کو اپنی تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے تیل و گیس درکار ہے۔  اور ان کی یہ ضرورت پاکستان کے راستے پوری ہو سکتی ہے۔ 

پاکستان نے ایران (4500کلومیٹر) یا ترکی (5000کلومیٹر) کے مقابلے میں وسطی ایشیائی ریاستوں کو 2600 کلومیٹر کے مختصر راہداری کی پیش کش کی ہے۔ بحری راستوں سے محروم افغانستان تعمیر نو کے مرحلے سے گزر رہا ہے وہ بھی سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان کا محتاج ہے۔ 

اگر پاکستان ایرانی گیس کو انڈیا اور چین لے گیا تو خریدار اور بیچنے والا دونوں پاکستان پر انحصار کرینگے۔ پرویز مشرف نے پاک ایران انڈیا پائپ لائن کی شکل میں اس پر کام شروع کیا تھا جو اس کے بعد آنے والوں نے روک دیا۔ 

پاکستان کے ذرعی اور آبی وسائل 

پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ 
پاکستان کے پاس دنیا کا سب سے بڑا اور بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی پگھلنے والی برف سے پورا پاکستان سیراب ہوسکتا ہے۔ 
پاکستان کا دریائے سندھ اللہ کا عظیم تحفہ ہے جو پورے پاکستان کے عین درمیان میں پاکستان کے لمبائی کے رخ پر بہتا ہے اور یوں پاکستان کو موقع فراہم کرتا ہے اس سے پورے پاکستان کو سیراب کیا جا سکے۔ 
پاکستان میں اتنے زیادہ مقامات پر ڈیم بنانے کی گنجائش ہے کہ پاکستان کم از کم ایک کروڑ کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کر سکتا ہے اور دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے۔ ان ممکنہ ڈیموں میں کٹزارا ڈیم بھی شامل ہے جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ جس کے بعد ہمارے تمام دریاؤں میں سارا سال پانی رواں دواں رہے گا اور پاکستان پر کبھی خشک سالی نہیں آئیگی۔ 
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کو اللہ نے پانچ سوسم دئیے ہیں یوں پاکستان میں سبزیوں، پھلوں اور دیگر اجناس کی سب سے زیادہ اقسام پیدا ہوتی ہیں۔

پاکستانی کپاس اور پاکستان کا باسمتی چاول دنیا بھر میں اپنے ذائقے اور کوالٹی کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان دالیں پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کھجور، آم، کیلا اور کینو پیدا کرنے والے دنیا کے دو تین بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان اپنی زمین سے صحیح معنوں میں پیدوار حاصل کرے تو پورے ایشیاء کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور صرف صوبہ پنجاب پورے پاکستان کی خوراک پوری کر سکتا ہے۔ 

لیکن ہماری بدقسمتی کہ پاکستان میں آبی وسائل کو بہت تیزی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔ محض ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے بلوچستان اور کے پی کے کی لاکھوں ایکڑ کی وسیع و عریض زمینیں بنجر پڑی ہوئی ہیں اور سندھ میں تیزی سے پانی کم ہو رہا ہے۔  

انڈیا  بہت تیزی سے ہمارا پانی روک کر ہماری ذراعت کو تباہ کرنے اور بے پناہ آبی وسائل رکھنے والے اس ملک کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے۔  

توانائی کے وسائل 

پاکستان چاہے تو اتنی بجلی پیدا کر سکتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ چین، انڈیا اور افغانستان کی بھی بجلی کی کل ضرورت پوری کر لے۔ 

پاکستان کی بجلی کی کل ضرورت تقریباً 18 تا 20 ہزار میگاواٹ ہے۔ 

اگر پاکستان پانی سے بجلی بنانے پر توجہ دے تو وپڈا تحقیق کے مطابق پاکستان سستی ترین 59 ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ 

چین، انڈیا اور امریکہ جیسے ممالک اپنی آدھی بجلی کوئلے سے بناتے ہیں۔ دنیا میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کوئلے سے نہ ہونے کے برابر بجلی بنائی جا رہی ہے۔ 
ایک اندازے کے مطابق صرف صحرائے تھر میں موجود کوئلے سے پاکستان سالانہ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے اور پاکستان کو سو سال تک کسی دوسرے ذریعے سے بجلی بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ 

پاکستان میں ہوا کے ذریعے بجلی بنانے کے بھی بہت وسیع مواقع ہیں۔ صرف پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہوا کے ذریعے 55 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ڈنمارک جیسا ملک اپنی بجلی کی آدھی ضروریات ہوا سے پوری کرتا ہے۔ 

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سارا سال سورج کی روشنی دستیاب رہتی ہے۔ یوں پاکستان میں شمسی توانائی سے لاکھوں میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے۔ البتہ توانائی کا یہ ذریعہ ذرا مہنگا ہے۔ 

پاکستان کے 1100 کلومیٹر وسیع ساحل پر بھی مدوجزر کے زریعے ہزاروں میگاوٹ سستی بجلی بنانے کے موقع موجود ہیں۔ 

لوڈ شیڈنگ کے شکار پاکستان کے پاس سستی بجلی بنانے کے اتنے زیادہ مواقع ہیں کہ شائد ہی کسی دوسرے ملک کے پاس ہوں۔ البتہ ان مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مخلص قیادت درکار ہے جو فلحال پاکستان میں نایاب ہے۔ 

معدنی وسائل 

پاکستان 9 ارب بیرل تیل کے معلوم ذخائر کے ساتھ تیل کے ذخائر رکھنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ جبکہ پاکستان کے چٹائی علاقوں میں مزید اور اس سے کئی گنا بڑے ذخائر ہونے کا امکان ہے۔ 

اسی طرح پاکستان 35 ٹریلین کیوبک میٹر معلوم گیس کے ذخائر کے ساتھ روس کے بعد گیس کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 
( وکیپیڈیا پر اس حوالے سے موجود معلومات درست نہیں )

لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی ضرورت کا صرف ایک چوتھائی تیل نکالتے ہیں اور تین چوتھائی خریدتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنی ضرورت کے مطابق گیس بھی نہیں نکال رہے۔ 

جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1992 میں سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جو مجموعی طور پر 175 ارب ٹن جتنے ہیں۔ اگر ان میں صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کے دیگر ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185 ارب ٹن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ لگنائٹ قسم کے کوئلے پر مشتمل ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے اینتھراسائٹ کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ 

عالمی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی کوئلے میں سلفر اور راکھ کی مقدار خاصی کم ہے جبکہ فیصل آباد میں واقع تحقیقی ادارے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ‘‘ (NIBGE) کے ماہرین 2005 ہی میں ایسے صنعتی طریقے وضع کرچکے تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے اس کوئلے میں شامل راکھ اور سلفر کی مقدار بہت کم کی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ حکومتِ پاکستان نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیمتی کوئلہ اب تک عالمی ماحولیاتی اعتراضات کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا رہا۔

امریکہ میں کوئلے کے کل معلوم ذخائر 246 ارب ٹن ہیں۔ 
جبکہ روس میں 157 ارب ٹن ہیں۔ 
اس کا مطلب ہے کہ پاکستان 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر کے ساتھ امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور روس تیسرے نمبر پر۔ 

کہا جاتا ہے کہ پاکستان موجود کوئلے کی قیمت سعودی عرب میں موجود تیل کی قیمت کے برابر ہے۔ 

سندھ میں پایا جانے والا کوئلہ اسی بیلٹ کا ہے جو حیدرآباد دکن میں پائی جاتی ہے جو کسی دور میں سب سے زیادہ ہیرے پیدا کرنے والا ملک تھا۔ اس لیے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ سندھ میں کوئلے کی کان کنی کے دوران ہیروں کے ذخائر دریافت ہوں۔

پاکستان میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن کی مالیت 500 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کا کل قرضہ 100 ارب ڈالر سے کم ہے۔ 
کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ذخائر اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کو چھپایا جا رہا ہے۔ 
ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک میں 2 ارب ٹن تانبا اور 2 کروڑ اونس سونا موجود ہے۔ 

پاکستان دنیا میں ماربل اور گرینائٹ کے ذخائر رکھنے والا چھٹا بڑا ملک ہے کیونکہ ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں ان قیمتی پتھروں کے تقریبا 297 ارب ٹن کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ 

انڈیا میں صرف تین قسم کا ماربل پایا جاتا ہے لیکن اس کی ماربل کی برآمدات 10 ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ پاکستان میں 10 سے زائد اقسام کا ماربل پایا جاتا ہے اس حساب سے پاکستان کی برآمدات کم از کم 50 ارب ڈالر ہونی چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسیع ذخائر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔کوہستان نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے۔یہ نمک بہت عمدہ اور معیاری ہے۔ نمک کی سب سے بڑی کان کھیوڑو (ضلع جہلم)میں ہے۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ 

کالا باغ کے علاقے میں خام لوہے یا لوہے کی معدن کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے 32 کلومیٹر جنوب میں لنگڑبال اور چترال میں دستیات ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں خام لوہے( لوہے کی معدن)خضدار، چل غازی اور مسلم باغ میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا لوہا ملک کی صرف 16 فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس پر بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اسی طرح کرومائیٹ کے بھی پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ کرومائیٹ فولاد سازی سمیت کئی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 

اسی طرح پاکستان میں مختلف قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔ قیمتی پتھروں کی بڑی کانیں سوات کے علاقے میں ہیں۔ 

پاکستان میں سیر و سیاحت کے مواقع 

جتنا پاکستان کا کل بجٹ ہے اس سے زیادہ فرانس صرف سیاحت سے کما لیتا ہے۔ پاکستان میں سیر و سیاحت کے بے شمار مواقع ہیں جن کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے۔ 

دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے 43 پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی شامل ہے۔

پاکستان میں شندور کے مقام پر دنیا کا سب سے بلند کھیل کا میدان ( پولو گراؤنڈ ) ہے۔ یہ سطح سمندر سے ساڑے بارہ ہزار فٹ بلند ہے۔ 

ٹھٹھہ کے قریب واقع مکلی کا قبرستان دنیا دوسرا سب سے بڑا قبرستان ہے جو 6 مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس قبرستان میں چودھویں سے اٹھارہویں صدی تک کی قبریں اور مقبرے موجود ہیں۔ قبروں اور مقبروں کی عمدہ نقش نگاری، بے مثال خطاطی اور اعلی کندہ کاری اپنی مثال آپ ہے۔ مکلی کے قبرستان کو یونیسکو نے سن 1981ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

موئن جو داڑو دنیا کی قدیم ترین ترقی یافتہ تہذیبوں میں سے ایک ہے جہاں بعض ماہرین کے مطابق 4 ہزار سال قبل نیوکلئر ہتھیاروں سے ملتے جلتے ہتھیاروں کا استعمال ہوا تھا۔ 

دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل چھانگا مانگا بھی پاکستان میں ہے جو 12 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ 

پاکستان میں کھیوڑہ کے مقام پر دنیا کی دوسری بڑی کان واقع ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیاء میں کوئلے کی قدیم ترین کان بھی یہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب سکندرِ اعظم 322 قبل مسیح میں ہندوستان آیا تو اُس کے لشکر میں سپاہیوں نے دریافت کیا کہ اِس علاقے (کھیوڑہ) کے پتھر غیر معمولی طور پر نمکین ہیں؛ اور اِس طرح یہاں نمک کی کان دریافت ہوئی۔

کھیوڑہ میں نمک کی کان 110 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ اِس میں 19 منزلیں ہیں جن میں سے 11 منزلیں زیرِ زمین واقع ہیں۔ نمک کے علاوہ یہ کان اپنی اندرونی خوبصورتی اور آرائش کے لیے بھی خصوصی شہرت رکھتی ہے کیونکہ اِس میں نمکین پانی کے خوبصورت تالابوں کے علاوہ رنگین راہداریاں، دمکتے ستون اور ایک مسجد بھی ہے جسے نمک کی اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ 

پاکستان میں واقع  کوہستان آرک پورے سیارہ زمین پر واحد مقام ہے جہاں کرہ ارض کا اوپری حصہ قشر (کرسٹ) اور نچلا حصہ مینٹل باہم ملتا دکھائی دیتا ہے ورنہ عام حالات میں یہ سینکڑوں کلومیٹر نیچے ہوتا ہے۔

بلند ترین پہاڑوں اور دشوار حالات میں تعمیر ہونے والے قراقرم ہائی وے کو دنیا کی سب سے طویل اور بلند پختہ سڑک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ خنجراب بائی پاس (گلگت بلتستان) کی 16 ہزار 2 سو فٹ کی بلندی پر تعمیر شدہ 806 کلو میٹر طویل بائی پاس خوبصورت نظاروں سے مالا مال ہے۔ بہتا ہوا دریائے سندھ اور اونچے برفیلے پہاڑوں کے حسین مناطر قراقرم ہائی وے پر سفر کا لطف دوبالا کردیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہائی وے سے کے ٹو کی اونچی چوٹی کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ٹیکسلا میں موجود 2 سو صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی جولیاں کی خانقاہ کو دنیا کی قدیم ترین جامعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں برصغیر ہندوستان، وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور چین سے لوگ علم حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔

وادی کیلاش اپنی منفرد تہذیب، رنگا رنگ تہواروں اور حسین و دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں جُداگانہ مقام رکھتی ہے۔ اس وادی میں کیلاش قبیلہ آباد ہے جو اپنی طرزِ رہائش اور رسومات، لباس اور رواج منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ 

فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ مہر گڑھ کی انہی آثار میں دانتوں میں ڈرل کی مدد سے سوراخ کرنے کے بھی آثار ملے ہیں۔ 
خیال رہے کہ یہ تہذیب دنیا کی سب سے قدیم ترقی یافتہ تہذیب گنی جاتی ہے جو تقریبا ساڑے چھ سے سات ہزار سال پرانی ہے۔ 

قطبین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیرز پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ 

پاکستان میں بیک وقت لق و دق صحرا، برف پوش پہاڑ، سرسبز وادیاں، سطح مرتفع اور وسیع میدانی علاقے پائے جاتے ہیں۔ 

یہ بھی ہماری نااہلی ہے کہ ہم اپنے ملک میں کبھی ان سیاحتی مقامات کی جانب دنیا کو متوجہ نہیں کر سکے۔ 

انسانی وسائل 

پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں سے کم از کم 14 کروڑ تعداد جوانوں کی ہے جو کام کام کر سکتے ہیں۔ 

اگر پاکستان اپنے ان تمام وسائل سے بھرپور انداز میں استفادہ کرنا شروع کر دے تو دنیا کا سب سے خوشحال اور طاقتور ملک بن سکتا ہے۔

تحریر شاہدخان

Comments